Translate

Monday, February 1, 2010

Khwahish-e-Namvari

خواہشِ ناموری
محمد اطہر احمد صدیقی
ہر شخص کو اپنی عزت و شہرت کی خواہش ہوتی ہے۔ ہمیں بھی ہے۔ پیسہ جب ضرورت سے زیادہ کما لیا جائے تو پھر شہرت کے راستوں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ کئی ایک طریقوں کے منجملہ شہرت کمانے کا ایک طریقہ سیاست بھی ہے۔ جہاں شہرت ملتی ہے (تھوڑا سا ضمیر کو مارا جائے تو بے پناہ پیسہ بھی) ۔ چنانچہ اپنے رفیق دیرینہ مشیر میاں سے اس سلسلہ میں مشاورت کی تو کہنے لگے میاں سیاست میں اترنے کےلئے بے پناہ عقلمندی کی ضرورت ہے یا پھر اتنی ہی بے وقوفی کی۔ آپ کا کیا موقف ہے۔


ہم نے کہا ”ہم عقلمند ہیں کیونکہ ہمارے پاس بینک بیلنس، گاڑیاں اپنا بڑا کاروبار ہے کوٹھیاں ہیں اور ہم سیاست میں اتر کر اب عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ “


حسب توقع مشیر میاں نے منفی رائے پیش کی۔ کہنے لگے ”پیسہ کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا سیاست میں کامیاب ہونا۔ اس میدان میں اترنے والے سمجھ دار لوگ یا تو اللہ کو پیارے ہوتے ہیں یا پرانے سیاست دانوں کو اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو ان کے مساوی ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ تمہیں سیاست سے اتنا ہی دور رہنا چاہئے جتنا کہ تم نے پیسہ کمانے کے بعد اپنے والدین سے رہے۔“

ہم نے وہی کیا جو ہمیشہ مشوروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک کان سے سنے اور دوسرے کان سے نکال دیا۔
سب سے پہلے ہم نے ایک سیاست دانوں کی تنظیم کے صدر سے ملاقات کی اور ان سے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر موصوف کی بانچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگے عوام کو ایک سچے ہمدرد، غم خوار، بہی خواہ، خدمت گزار کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں سیاسی قائدین صرف اپنے گھروں کی ترقی میں مصروف ہیں۔ عوام بھی تبدیلی کی خواہاں ہے۔ آپ کی شکل میں انہیں ایک سچا خدمت گار ملے گا۔ اب آپ نے ہم سے تعلق قائم کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو آپ کو رکن مقننہ بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ “


ہر چند کے لوگ بے وقوف بنتے ہی ہیں۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ ان بےوقوفوں میں ہمارا نام بھی شامل ہوجائے گا۔ چنانچہ موصوف نے ہمیں اپنی آرگنائزیشن کے اراکین سے ملواےا اور ہمیں ایک لمبی فہرست تھمادی ۔ ہم نے استفسار کیا تو کہنے لگے جناب اس فہرست میں وہ تمام امور اکٹھا کردیئے گئے ہیں جن پر آج کل عوام کی نظر ہے۔ اس سے ہمیں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔


انہوں نے سب سے پہلے اپنے ادارے سے ہمارا الحاق کے لیے ایک اشتہار جاری کرواےا۔ پھر فوراً ہم سے کچھ روپے وصول کرتے ہوئے وہیں سامنے راستہ روکو احتجاج شروع کردےا ۔ جب ہم نے وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے اسمبلی اجلاس جاری ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوگی جس پر احتجاج کیا جاسکے۔ جیسے ہی وجہ معلوم ہو گی آپ کو مطلع کردوں گا۔
اس کے بعد روز کا معمول سا بن گےا کہ موصوف کسی دن راستہ روکو احتجاج کرتے ، کسی دن کوئی میمورنڈم کسی منسٹر کو دیتے، کسی غیر اہم معاملے میں کود پڑتے اور اس طرح کوشش کرتے کہ وہ اس معاملے کو بڑی محنت و جستجو سے نبٹا رہے ہیں جب کہ وہ معاملہ اپنے آپ ہی نمٹ جاتا۔ اس طرح وہ ہمیں روز بلوا لیتے اور یقینی طور پر ان تمام معاملات کے اخراجات ہمارے ذمہ ہوجاتے۔ اس کا حاصل بتایا کہ روزانہ اخبارات میں آپ کی تصویر اور خبر شائع ہو رہی ہے۔ اس سے آپ عوام میں مقبول ہو رہے ہیں۔


اللہ اللہ کر کے الیکشن کے دن بھی قریب آگئے۔ موصوف فرمانے لگے اب اصل کام کا آغاز کرنا ہے۔ کچھ لیڈروں کے نام لے کر کہنے لگے کہ ان پر فلاں فلاں الزام لگانا ہے۔ ہم نے کہا فلاں لیڈر جو علاقہ کا رکن اسمبلی بھی ہیں اور ان میں بھی یہی تمام خوبیاں ہیں کیا ان پر یہ الزامات نہیں لگائے جاسکتے، انہوں نے کہا کہ نہیں وہ بہت اچھا آدمی ہے ۔ بعد میں احباب سے پتہ چلا کہ اس لیڈر سے ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں کیونکہ اکثر وہ بھی اپنے خرچ پر ان سے احتجاج کرواتا رہتا ہے۔ موصوف نے ہم سے اشتہارات کے لیے بڑے پیمانے پر رقومات حاصل کرنی شروع کردیں۔ ہر اخبار میں ہمارا نام اور الیکشن کمیشن کی جانب سے ملا ہمارا امتیازی نشان شائع ہونے لگا۔ اس کے بعد کئی لوگ جن میں غنڈے، روڈی شیٹر اور لیڈر شامل تھے ہم سے ربط پیدا کرنے لگے۔ کوئی ہمارے ساتھ کام کرنے کی عین تمنا کا اظہار کرتا تو کوئی ہمیں نامزدگی واپس لےنے پر زور دیتا ۔ عدم واپسی کی صورت میں سنگین عواقب و نتائج کی دھمکی بھی دی جاتی۔ ان تمام عوامل میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ یہاں تک کہ ایک صاحب ہمارے گھر پہنچ کر گالیوں کے ذریعہ ہمیں گھر کے باہر طلب فرمایا۔ لیکن اسی وقت دو چار غنڈے بھی ہمارے یہاں کام کے سلسلے میں وارد ہوئے تھے، انہیں فوری طور پر اپنا سیکوریٹی گارڈ تعینات کرتے ہوئے گالیاں دےنے والے حضرت پر چھوڑ دیا۔ تھوڑی دےر بعد معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہمیں گالیاں دےنے والے حضرت کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے باڈی گارڈ کے ہی دوست تھے وہ اس لیے آئے تھے تاکہ ہمارے باڈی گارڈس کو نوکری مل سکے۔ اس کے بعد دوسرے چھوٹے موٹے لیڈروں کی دھمکیاں ملنے لگیں اور ان دھمکیوں کے بعد کچھ پولیس والوں کو بھی ہمارے یہاں آنے اور ہمارے مال سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ ہم پیسہ بہت خرچ کر رہے تھے اور مسلسل پدےاترا کرنے لگے تھے اس لیے بڑے پیمانے پر نہ صرف دھمکیاں ملنے لگیں بلکہ کچھ تو پیشکشیں بھی آنے لگیں۔


الیکشن کا دن قریب آیا تو یار لوگوں نے اچھے خاصے کرائے کے آدمیوں کا انتظام کردیا۔ اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ہمیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام میں دھر لیا اور حوالات کی ہوا کھلائی۔ جیسے تیسے ضمانت پر رہا ہوئے۔
اور جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہمیں اپنے گھر والوں کے علاوہ کچھ اور لوگوں کے بھی ووٹ ملے لیکن اس کا نتیجہ سوائے ضمانت ضبط ہونے کے کچھ نہ نکلا ۔ جب اپنے اثاثہ جات پر نظر کی تو بنگلہ کھڑا تھا۔ کاروبار جس پر ہمیں غرور بیٹھ چکا تھا اور بینک بیلنس کب کا لیٹ چکا تھا۔ اب افسوس ہونے لگا کہ نام کمانے کی چکر میں حالت قلاش تک پہنچ گئی۔ اگر نام ہی کمانا تھا تو کسی ادبی انجمن کی بناءڈالتے اور اس کے خود ساختہ صدر بن کر لکھنے والوں میں انعامات بانٹتے۔ اس سے کچھ لوگوں کی شکایات بھی کم ہوتی ، خرچ بھی کم ہوتا اور کچھ ناموری بھی حاصل ہوجاتی ۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑےا چگ گئی کھیت